₨ 500 Original price was: ₨ 500.₨ 390Current price is: ₨ 390./-
Writer : Allama Muhammad Iqbal
Category : Taswauf
Page : 161
Binding : HArd Binding
Page Quality : Good
50 in stock
50 in stock
فکرِ اقبال میں مرکزی نکتہ خودی ہے اورخودی کی کامل ترین صورت خدا ہے جسے انائے کبیر کہا گیا ہے۔ وہ اپنی شانِ یکتائی و کبریا میں سب سے اعلیٰ ہے۔ انسانی خودی یکتائی و انفرادیت کی منازل طے کرتے ہوئے خدا سے قریب تر ہو جاتی ہے لیکن علامہ اقبال کے مطابق وہ اپنا علیحدہ وجود برقرار رکھتی ہے۔ انفرادی انا کا انائے کبیر تک پہنچنے کا راستہ تصوف کا راستہ ہے جو کئی ایک مراحل عبور کر کے وہاں تک پہنچتا ہے وہ انسانِ کامل ہے۔ انسانی خودی اس بلندی پر پہنچ کر لافانی ہو جاتی ہے اور موت بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔
اقبال کا کہنا یہ ہے کہ: ”خودی کو بقائے دوام کی ضمانت خودبخود نہیں ملتی بلکہ جدوجہد سے حاصل کی جاتی ہے۔ یہاں یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ بقا کے مدارج کا انحصار خودی کی جدوجہد پر ہے کیونکہ یہ ظاہر بات ہے کہ کوئی وجود عقلاً معدوم نہیں ہو سکتا۔ فنائے کامل ایک لایعنی شے ہے اور برگساں کا یہ قول درست ہے کہ عدم محض کا تصور ناممکن ہے۔ اس کائنات کے معرضِ وجود میں آنے سے پیش تر یقینا کوئی نہ کوئی نظامِ ہستی رہا ہو گا کیونکہ عدم کا تصور ناممکن ہے۔ یہ اثبات وجودِ باری تعالیٰ کے لئے ایک قوی دلیل ہے اور یہ دلیل بقائے خودی کے لیے بھی مساوی طور پر کارآمد ہے۔“ حوالہ فلسفہئ اقبال، مرتبہ بزمِ اقبال مضمون ”اقبال کا فلسفہئ خودی“ از عبدالرحمن مترجمہ افتخار احمد۔
علامہ اقبال کے تصورِ خودی میں تکمیلِ خودی کے تین مراحل ہیں۔ اطاعت، ضبطِ نفس اور نیابتِ الٰہی۔ پہلے دو مراحل کو جس خوبی اور جدوجہد سے صوفیہ کرام نے عبور کیا ہے اس کا تذکرہ صوفیہ کرام کے ہر دور میں ملتا ہے لیکن اقبال کی خودی فنا فی اللہ کے بجائے اپنی الگ حیثیت و اصلیت قائم رکھتی ہے۔ ارتقائے خودی کی کوئی انتہا نہیں یہ بحرِ بے کنار ہے کیونکہ خودی اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں کی بنا پر لافانی ہے۔ وہ فنا نہیں ہوتی بلکہ موت کے بعد بھی زندہ رہتی ہے۔
فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا
تیرے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے!
₨ 600 Original price was: ₨ 600.₨ 450Current price is: ₨ 450./-
2023 © BOOKS HUBZ. All Rights Reversed.
WhatsApp us