کتاب : گنگا بہے نہ رات
مصنف : کرشن چندر
از قلم زین سلیم
گنگا بہے نہ رات کرشن چندر کا ایک طلسماتی ناول ہے جس میں بہت سی پراسرار دنیا کی باتیں جس میں جنوں روحوں کے ساتھ مقالمہ جگہ جگہ سسپنس اور مور لیتی کہانی ھے۔ کرشن چندر کا یہ ناول اور دادر پل کے بچے دونوں ایک ہی کہانی اور منظر نامے پر مبنی ہیں۔
اس ناول میں کرشن چندر نے مذہبی تقسیم کو تنقید کا نشانہ بنایا اور انسانی بنیادوں پر رشتے بنانے کو ڈھکے چھپے الفاظ میں فروغ دیا ھے۔ اس کہانی کا مرکزی کردار موتی لال ہے ایک شاعر کے ساتھ ساتھ دقیانوسی تصورات کی ترجمانی کرتا اور پرانے زمانے کے رہن سہن کو رنگدار اور پر سکون قرار دیتا ہے اور جدت کو بے رنگ زندگی قرار دیتا ہے سرمایہ داروں کے ذہنی کفیت کو بھی خوش اسلوبی سے بیان کرتا ہے۔
اس کہانی کا مرکزی کردار بہت ہی مدبرانہ اور فلسفیانہ سوچ کا حامل ہے اور وہ افسانوی دنیا کو بھی حقیقت کی نظر سے دیکھتا اور محسوس کرتا ہے
کہانی کا اہم کردار نسیمہ نامی لڑکی کو دیا گیا ہے جو غیر ضروری اور مجبورا نیم المیہ کردار بنا دیا ہے لیکن کہانی کا مرکزی کردار اور سب سے اہم کردار موتی لال ناگر اور شیونتی ہے۔ نسیمہ تو بس کہانی میں افسانہ در افسانہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
موتی لال ناگر جو اس کہانی کا ایک شاعر مزاج رکھنے والا لڑکا جو محکمہ جنگلات کے افسران کے حکم پر دیہاتوں میں جا کر پرانے کھنڈر اور مغلوں کے دور کے قعلوں اور پہاڑوں میں بنی مورتیوں کو (رینوویشن) دوبارہ سے اصل حالت میں لانے کے لیے اور ان کی نقلیں اتارنے کے لیے بیدروہ کے گاؤں میں پہنچتا ہے۔
اور وہاں اپنا مقام ایک پرانے قعلے میں کرتا ہے اس قلعے کے بارے میں گاؤں کے تمام لوگ ناگر کو آگاہ کرتے ہیں کہ یہ جنات اور روحوں کا بسیرا ہے
شنکر جاتے ہوئے یہ بھی کہہ گیا کہ آپ سے پہلے اس قعلے میں ایک کلیکٹر صاحب رکے تھے اور دو دن بعد پھر ان کی لاشں ملی تھی۔۔۔۔۔
ناگر اگلے روز نسیمہ سے ملا جس نے شاعر سوز فتح پوری کی روداد سنائی جو عشق لڑانے چلا تھا جس کو پر نسیمہ نے فتح پوری کو کہا کہ ہماری ایک کہاوت ہے
پریم نہ دیکھے جات کجات
پریم نے دیکھے کایا مایا
پریم ہے دل کی چھایا۔
پہلی شرط آدمی کو اپنی کلاس میں رہ کر کرنا چاہیے دوسری شرط آپ نے مذہب میں رہ کر کرنا چاہیے۔
ناگر عورت کی ملکانہ حس تیز ہوتی ہے اس لیے محبت کوئی دھندلی چاندنی نہیں ہے۔
ناگر محبت ایک مشکل جذبہ ہے اس لیے میں کسی ایسی عورت سے محبت نہیں کر سکتا جو اس دنیا کی ہو مجھے تو بس وہ گلابی چرن کمل پسند ہیں جو مجھے کبھی خیالوں کے افق پر ناچتے ہوئے نظر ائے تھے۔
قعلے میں ناگر شیونتی کی آتما سے ملا جو ایک پراسرار کہانی پر مبنی داستان ھے۔
سن47 کا واقعہ ہے پنڈت روی داس کا ایک چھوٹا بھائی ہری داس وہ اس مندر کا پجاری تھا اس کی بیوی مر چکی تھی دو لڑکیاں تھی بڑی شیونتی چھوٹی رتنا اور اس وقت اس قلعے میں ایک انگریز جافر خان صاحب تھے جو شیونتی کے دیوانے ہو گئے اور اسے اس کے گھر سے اٹھوا کر اس کو قلعے میں جا کر اس کے ساتھ زیادتی کی اور وہیں سے مار دیا کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ دوسرے ملک لے گئے بعض لوگ کہتے ہیں اس قعلے میں شیونتی کی آتما ہے لیکن کچھ گاؤں کے لوگ بھی اس کی موت میں شامل تھے۔
پھر ناگر شیونتی کے قتلوں کو کس طرح کیفرکردار تک پہنچاتا ھے گوگل داس کو مارنا روی داس پر آسمانی بجلی گر جانا تمام کرداروں کو بڑی خوبی سے بیان کیا گیا ھے۔
اقتباس:
مجھے سے پیار نہ کرو میں مر چکی ہوں میرے درمیان موت کی کھائی ھے۔
لالی موت کا سفر کتنا ہی مشکل نہ ہو میں اس کو طے کر کے تمہیں حاصل کرو گا۔ شیونتی نے میرے منہ بند کر دیا اور اس رات ایک گیت گنگنایا کوئی لوک گیت تھا۔
رات کو گنگا نہیں بہتی۔
ایک رات مرد ھے۔
ایک رات عورت ھے
دن وہ رقیب ھے جو رات کو رات سے جدا کرتا ھے رات کو گنگا نہیں بہتی گنگا دن کو بہتی ھے رات کو وہ کالا کپڑا پہن کر نکلتی ھے۔
موتی میں تو ہر رات اسے ڈھونڈتی ہو ہر رات موت کے دروازے سے گزرتی ہوں۔
کیونکہ دن مرد ھے۔
رات پریم ھے۔
رات کو گنگا نہیں بہتی رات کو صرف آنسو بہتے ہیں